کسی طرح تو درِ دل پہ دستکیں دیتے
خیالِ سوق کو کچھ اور وحشتیں دیتے
تِرے خیال، تِری چاہتوں کی خواہش میں
خود اپنے آپ کو ہم تو اذیتیں دیتے
بھلا ہوا کہ اجڑ ہی گیا یہ گوشۂ دل
مٹا دیا ہے بھلا نقشِ پا کو کیوں اپنے
ہمارے سجدے اسے اور عظمتیں دیتے
کچھ اور رنگ بہاروں کا بھی نکھر جاتا
ہم اپنے خون سے گلشن کو رونقیں دیتے
نزہت عباسی
No comments:
Post a Comment