سارے چہرے بھول چکے ہیں ایک وہ چہرا یاد رہا
یاد کا جنگل، غم کا بادل، دکھ کا صحرا یاد رہا
اپنی ساری باتیں تو میں اک اک کر کے بھول چکی
اس کی صورت اس کی باتیں اس کا لہجہ یاد رہا
سارے رستے جاتے جاتے اور طرف کو جا نکلے
جو بھی اس نے گھاؤ دئیے ہیں، رکھا ان کو اپنا کر
جو بھی اس نے وار کیا ہے، زخم وہ گہرا یاد رہا
خون کے رشتے زہر میں بجھ کر دل میں اترتے جاتے ہیں
کتنے رشتے یاد تھے لیکن، کون سا رشتہ یاد رہا
خاک اڑتی ہے یادوں کی اب دل کے سُونے آنگن میں
خالی گھر کے سناٹے کو تیرا جانا یاد رہا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے بھول گئے ہیں کیا کیا کچھ
تم اب پوچھنے کیوں آۓ ہو؟ ہم کو کیا کیا یاد رہا
نزہت عباسی
No comments:
Post a Comment