Thursday 27 August 2020

کون پہچانے مجھے شب بھر تو خطروں میں رہا

کون پہچانے مجھے شب بھر تو خطروں میں رہا
وہ اندھیرا ہوں جو دن بھر بند کمروں میں رہا
سب کی نظریں روز پڑتی تھیں کوئی پڑھتا نہ تھا
میں تو ہر اخبار کی گمنام خبروں میں رہا
میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مِرا مُردہ بدن
ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا
آج کا انسان چادر اوڑھ کر احساس کی 
زندگی کے شہر میں جی کر بھی قبروں میں رہا 
وقت نے قطروں کو سمجھا ہے سمندر کی طرح
جو سمندر تھا، ہمیشہ چند قطروں میں رہا
جس کو بخشا ہے خدا نے فکر کا جذبہ نظیر
وہ پرانی اور نئی ساری ہی قدروں میں رہا

نظیر باقری

No comments:

Post a Comment