اجل نظرِ کرم ان پر، یہ جتنے لوگ بیٹھے ہیں
کہ بستی جل رہی ہے اور مزے سے لوگ بیٹھے ہیں
اندھیرے میں سفر ہوتا رہا تو کون دیکھے گا
تھکن سے رہنما بیٹھا کہ پہلے لوگ بیٹھے ہیں
قرینہ مے کشی کا ہے، نہ قدرِِ بادہ و مِینا
کہیں جینے کی خواہش خون کے آنسو رلاتی ہے
کہیں مرنے کی تیاری میں کتنے لوگ بیٹھے ہیں
اب اس بستی کے ہر گوشے میں اس کی ہے عملداری
اب اس بستی کے ہر ناکے پہ اس کے لوگ بیٹھے ہیں
میں کیسے مان لوں راغب کہ اب حالات بدلیں گے
سرِِ منصب تو سارے آزمائے لوگ بیٹھے ہیں
راغب تحسین
No comments:
Post a Comment