کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ
لکھا ہوا ورق ہوں مجھے پھر الٹ کے دیکھ
مانا کہ تجھ سے کوئی تعلق نہیں، مگر
اک بار دشمنوں کی طرح ہی پلٹ کے دیکھ
پھر پوچھنا کہ کیسے بھٹکتی ہے زندگی
تا عمر پھر نہ ہو گی اجالوں کی آرزو
تُو بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ کے دیکھ
سجدے تجھے کرے گی کسی روز خود حیات
بانہوں میں حادثات جہاں کی سمٹ کے دیکھ
تنہائیوں میں سیکڑوں ساتھی بھی ہیں نظیر
ہے شرط اپنی ذات کے حصوں میں بٹ کے دیکھ
نظیر باقری
No comments:
Post a Comment