Thursday, 27 August 2020

کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ

کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ 
لکھا ہوا ورق ہوں مجھے پھر الٹ کے دیکھ 
مانا کہ تجھ سے کوئی تعلق نہیں، مگر 
اک بار دشمنوں کی طرح ہی پلٹ کے دیکھ 
پھر پوچھنا کہ کیسے بھٹکتی ہے زندگی 
پہلے کسی پتنگ کی مانند کٹ کے دیکھ 
تا عمر پھر نہ ہو گی اجالوں کی آرزو 
تُو بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ کے دیکھ 
سجدے تجھے کرے گی کسی روز خود حیات 
بانہوں میں حادثات جہاں کی سمٹ کے دیکھ 
تنہائیوں میں سیکڑوں ساتھی بھی ہیں نظیر
ہے شرط اپنی ذات کے حصوں میں بٹ کے دیکھ 

نظیر باقری

No comments:

Post a Comment