Thursday, 6 February 2020

بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں

یہ جو چہروں پہ لیے گردِ الم آتے ہیں
یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں
اتنا کھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
تُو سنا!! تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
وہ تو بیدلؔ کوئی سوکھا ہوا پتا ہو گا
تیرے آنگن میں کہاں ان کے قدم آتے ہیں

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment