یہ ہمسفر جو تمہیں بے خبر سا لگتا ہے
ہمیں یہ شخص بہت پُر خطر سا لگتا ہے
وہ ہمسفر تھا مگر اجنبی سا لگتا تھا
یہ اجنبی ہے مگر، ہمسفر سا لگتا ہے
اسی کے سائے میں سستا کے لوگ آگے بڑھے
ضرورتوں پہ جو قابو رکھا تو یہ دیکھا
جہاں بھی بیٹھ گئے اپنا گھر سا لگتا ہے
دعا سکوں کی نہیں، اضطراب کی مانگو
کہ اب دعا میں بھی الٹا اثر سا لگتا ہے
وہ دن کہ غیر بھی جب ہم کو اپنے لگتے تھے
یہ دن کہ اپنوں سے بھی اب تو ڈر سا لگتا ہے
گلے ملو کہ بچھڑنا ہے اس کے بعد ہمیں
سفر جو باقی ہے اب مختصر سا لگتا ہے
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment