ہماری نیند ہے پوری نہ خواب پورے ہیں
ادھورے لوگ ہیں لیکن عذاب پورے ہیں
تمہارے بعد ہمیں یہ کبھی لگا ہی نہیں
کہ ہم جہاں ہیں وہاں دستیاب پورے ہیں
ہمارے شہر کے آدھے خراب آدھے ہیں
کہاں ہے، کیسے ہے، کیوں ہے، اگر، مگر، شاید
تمہارے پاس تو سارے جواب پورے ہیں
ہے دس قدم کی مسافت پہ اس کا کالج بھی
ہمارے ہاتھ میں بھی دس گلاب پورے ہیں
تو کیا ہوا ہے اگر عقل کے یہ ہیں آدھے
یہ پیسے والے ہیں عزت مآب پورے ہیں
اسی لیے تو محبت نہیں رہی ہم میں
پڑھے ذرا نہیں، اہلِ کتاب پورے ہیں
تمہارا شکریہ، تم شوق سے چلے جاؤ
میں گِن چکا ہوں اذیت کے باب پورے ہیں
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment