Thursday 6 February 2020

خود سے مجھے ملا کے جدا ہو گیا تو بس

خود سے مجھے ملا کے جدا ہو گیا تو بس
غفلت سے بھی اگر وہ خفا ہو گیا تو بس
پہلے ہی وہ قدیم نظر مجھ سے خوش نہیں
میں تھوڑا سا بھی اور نیا ہو گیا تو بس
دنیا کو تیرے میرے تعلق پہ ناز ہے
تُو بھی مِرے خلاف کھڑا ہو گیا تو بس
دو گز کے فاصلہ پہ کھڑا ہے وہ خونخوار
اک تیر ہے اگر یہ خطا ہو گیا تو بس
محظوظ ہو رہی ہے مِرے بچپنے سے وہ
آفؔاق میں ذرا بھی بڑا ہو گیا تو بس

خرم آفاق

No comments:

Post a Comment