خود سے مجھے ملا کے جدا ہو گیا تو بس
غفلت سے بھی اگر وہ خفا ہو گیا تو بس
پہلے ہی وہ قدیم نظر مجھ سے خوش نہیں
میں تھوڑا سا بھی اور نیا ہو گیا تو بس
دنیا کو تیرے میرے تعلق پہ ناز ہے
دو گز کے فاصلہ پہ کھڑا ہے وہ خونخوار
اک تیر ہے اگر یہ خطا ہو گیا تو بس
محظوظ ہو رہی ہے مِرے بچپنے سے وہ
آفؔاق میں ذرا بھی بڑا ہو گیا تو بس
خرم آفاق
No comments:
Post a Comment