کوثرِ چشم کے بہتے ہوِئے دھارے لے کر
تیری جنت سے میں نکلا ہوں ستارے لے کر
بیکراں لگتا ہے اب مجھ کو یہ دریائے فراق
جانے کس سمت گیا ہے وہ کنارے لے کر
اب یہ سوچا ہے کہ گر گر کے سنبھلنا اچھا
تجھ سے خوش ہیں تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں
تحفتاً درد تِرے ہجر کے مارے لے کر
عہد و پیماں پہ بھلا کیوں نہ کریں اب ماتم
وہ مخالف ہوا سب راز ہمارے لے کر
تجھ سے مل مل کر بڑے مسرور ہیں خاور زیدی
ہنس پڑے جیسے کوئی بچہ غبارے لے کر
خاور زیدی
No comments:
Post a Comment