Thursday, 6 February 2020

میں نے ہونٹوں سے اسے دیکھا بہت

گرچہ کمرے میں اندھیرا تھا بہت
میں نے ہونٹوں سے اسے دیکھا بہت
کب تلک آباد رہتیں کشتیاں
مجھ میں دریا کم تھے اور صحرا بہت
آئینہ دیکھا تو مایوسی ہوئی
میں تو اب بھی ویسا ہوں تھوڑا بہت
اک خزانہ جو کبھی تھا ہی نہیں
کر گیا آخر مجھے گہرا بہت
میں بھی جانے کتنا مل پایا اسے
کیا غرض وہ مجھ کو کم ہے یا بہت
مجھ پہ کوئی رنگ و روغن کیا کرے
کام کم ہوتا ہے، اور خرچہ بہت

سعید شارق

No comments:

Post a Comment