Thursday, 6 February 2020

شعر کہنے کی للک اور لپک لے بیٹھی

شعر کہنے کی للک اور لپک لے بیٹھی
شعبدہ باز کو شہرت کی چمک لے بیٹھی
بادشاہا! تجھے اِس بات کا ادراک نہيں
تیرے دربار کو خود تیری بڑھک لے بیٹھی
اک اشارے نے کہیں کا نہيں چھوڑا اس کو
قیمتی کار کو بوسیدہ سڑک لے بیٹھی
مجھ کو درویش کی آواز نے روکے رکھا
دوڑنے والوں کو پیروں کی دھمک لے بیٹھی
دونوں اک ساتھ ہی آسیب کی زد میں آئے
شاخ کو پھول، پرندے کو چہک لے بیٹھی
کھلتے کھلتے ہی کھلے ہم پہ معانی دل کے
اور اُس وقت کہ جب سانس کھنک لے بیٹھی
تجھ سے اِک خاص تعلق تھا، وگرنہ عامی
تیرے جیسے کو مِری ایک جھڑک لے بیٹھی

عمران عامی

No comments:

Post a Comment