شعر کہنے کی للک اور لپک لے بیٹھی
شعبدہ باز کو شہرت کی چمک لے بیٹھی
بادشاہا! تجھے اِس بات کا ادراک نہيں
تیرے دربار کو خود تیری بڑھک لے بیٹھی
اک اشارے نے کہیں کا نہيں چھوڑا اس کو
مجھ کو درویش کی آواز نے روکے رکھا
دوڑنے والوں کو پیروں کی دھمک لے بیٹھی
دونوں اک ساتھ ہی آسیب کی زد میں آئے
شاخ کو پھول، پرندے کو چہک لے بیٹھی
کھلتے کھلتے ہی کھلے ہم پہ معانی دل کے
اور اُس وقت کہ جب سانس کھنک لے بیٹھی
تجھ سے اِک خاص تعلق تھا، وگرنہ عامی
تیرے جیسے کو مِری ایک جھڑک لے بیٹھی
عمران عامی
No comments:
Post a Comment