کبھی ذلت کبھی رسوائی نہیں دیکھی ہے
عشق والوں نے تو پسپائی نہیں دیکھی ہے
حسنِ یوسف کے مجھے قصے سنانے والے
تُو نے چاہت یہ زلیخائی نہیں دیکھی ہے
اس نے چہرے پہ قصیدے تو بہت لکھے ہیں
مل کے بانٹا تھا اثاثہ جو کبھی بھائیوں نے
ساتھ کھیلی تھی جو ماں جائی نہیں دیکھی ہے
اپنی اولاد کو فاقوں سے بچانے کے لیے
ڈانٹ سہتی ہوئی اک بائی نہیں دیکھی ہے
تم نے چاہت کو جواں رکھا ہے ان آنکھوں میں
مجھ میں دم توڑتی تنہائی نہیں دیکھی ہے
اپنی خوش فہمی پہ خوش ہوں کہ ابھی تک میں نے
غیر سے اس کی شناسائی نہیں دیکھی ہے
پیار دولت ہے مگر میں نے تو اس دولت کی
حلفیہ کہتی ہوں کہ اک پائی نہیں دیکھی ہے
زریں منور
No comments:
Post a Comment