Thursday 6 February 2020

وقت کر دے نہ کہیں داغ میں تبدیل مجھے

وقت کر دے نہ کہیں داغ میں تبدیل مجھے
دیکھ! بھرتا چلا جاتا ہوں ابھی چھیل مجھے
جمع کرتا ہوں یہ رس کانٹوں سے قطرہ قطرہ
اتنی آساں بھی نہیں رنج کی تحصیل مجھے
کبھی دیوار سے تصویر اتاری تھی کوئی
اب کہیں دیکھوں تو چبھتی ہے کوئی کیل مجھے
صرف زندہ ہی نہیں خوش بھی رہا ہوں میں اور
خیر اب یاد نہیں آ رہی تفصیل مجھے
ڈور کٹتی ہے تو کٹ جائے پلٹنا کیسا؟
مَیں نہ کہتا تھا کہ مت دینا کبھی ڈھیل مجھے
سوچتے سوچتے زنجیر جکڑ لیتی ہے
دیکھتے دیکھتے پڑ جاتے ہیں اب نیل مجھے
جانے کس کس سے ملا اور بچھڑتا رہا مَیں
یوں بھی کرنا تھی کسی ہجر کی تکمیل مجھے
کتنی گہرائی ضروری ہے ڈبونے کے لیے
ناپتا رہتا ہوں میں جھیل کو اور جھیل مجھے

سعید شارق

No comments:

Post a Comment