کوئی تصور ہے اور نہ تصویر صرف رنگوں میں بٹ رہی ہے
اس آئینے کے بدن سے ٹکرا کے روشنی ہی پلٹ رہی ہے
میرے قبیلے کے تاجروں کی نئے قبیلوں سے دوستی تھی
پھر ایک دن یہ پتہ چلا کہ ہماری تعداد گھٹ رہی ہے
کسی کے جانے سے ہر کسی کو ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے
تمہیں تو بالکل پتہ نہیں ہے، نہ فاصلوں کا، نہ قربتوں کا
یہ بیل اپنے قریب والے شجر سے کیسے لپٹ رہی ہے
کِسے بتائیں کہ اس تبرک کی ہم کو کتنی ضرورتیں ہیں
ہمیں سماعت کا مسئلہ ہے اور اس کی آواز بٹ رہی ہے
وہ جاتے جاتے کسی بھی کھڑکی سے جھانک لیتا تو کچھ نہ ہوتا
اب اس مکاں کے کواڑ کھولو وگرنہ دیوار پھٹ رہی ہے
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment