یوں تو پہلے بھی کئی بار ستم ٹوٹے ہیں
لیکن اس بار جو ٹوٹے ہیں تو ہم ٹوٹے ہیں
داستاں تشنۂ تکمیل پڑی ہے اب تک
عشق لکھتے ہوئے کتنے ہی قلم ٹوٹے ہیں
نارِ نمرود بھی گلزار ہوا چاہتی ہے
اس طرح کانچ کے برتن بھی کہاں ٹوٹتے ہیں
جیسے ہم دونوں ٹکرا کے بہم ٹوٹے ہیں
آج ہر آنکھ لہو اشک فشاں ہے احمد
ایسے لگتا ہے کہ یاروں کے بھرم ٹوٹے ہیں
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment