Thursday, 6 February 2020

عشق لکھتے ہوئے کتنے ہی قلم ٹوٹے ہیں

یوں تو پہلے بھی کئی بار ستم ٹوٹے ہیں
لیکن اس بار جو ٹوٹے ہیں تو ہم ٹوٹے ہیں
داستاں تشنۂ تکمیل پڑی ہے اب تک
عشق لکھتے ہوئے کتنے ہی قلم ٹوٹے ہیں
نارِ نمرود بھی گلزار ہوا چاہتی ہے
شور برپا ہے کہ آذر کے صنم ٹوٹے ہیں
اس طرح کانچ کے برتن بھی کہاں ٹوٹتے ہیں
جیسے ہم دونوں ٹکرا کے بہم ٹوٹے ہیں
آج ہر آنکھ لہو اشک فشاں ہے احمد
ایسے لگتا ہے کہ یاروں کے بھرم ٹوٹے ہیں

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment