Wednesday 5 February 2020

سارا شہر بلکتا ہے

سارا شہر بِلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے
ہر کوئی تصویر نما
دور خلا میں تکتا ہے
گلیوں میں بارود کی بُو
یا پھر خون مہکتا ہے
سب کے بازو یخ بستہ
سب کا جسم دہکتا ہے
ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے
تیرا بچھڑنا جانِ غزل
شہرِ غزل کا مقطع ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment