Saturday, 1 February 2020

ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں

کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں
ایسا ملا ہے دردِ دل جس کی کوئی دوا نہیں
میری نمازِ عشق کو شیخ سمجھ سکے گا کیا
اس نے درِ حبیب پہ سجدہ کبھی کِیا نہیں
مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا
میں تو صنم پرست ہوں، میرا کوئی خدا نہیں
کیسے ادا کروں نماز، کیسے جھکاؤں اپنا سر؟
صحنِ حرم میں شیخ جی! یار کا نقشِ پا نہیں
کیا ہیں اصولِ بندگی؟ اہلِ جنوں کو کیا خبر
سجدہ روا کہاں پہ ہے، سجدہ کہاں روا نہیں
مجھ سے شروع عشق میں مل کے جو تم بچھڑ گئے
بات ہے یہ نصیب کی، تم سے کوئی گِلہ نہیں
مجھ کو رہِ حیات میں لوگ بہت ملے، مگر
ان سے ملا دے جو مجھے ایسا کوئی ملا نہیں
اپنا بنا کے اے صنم! تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل، پھر یہ کبھی جلا نہیں 
عشق کی شان مرحبا، عشق ہے سنتِ خدا
عشق میں جو بھی مٹ گیا اس کو کبھی فنا نہیں

فنا بلند شہری

2 comments:

  1. کس کو سناؤں حال غم کوئی غم آشنا نہیں

    ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں
    راٸٹر کا کوٸی بتاسکتا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. شاعر/رائٹر کا نام گرامی فنا بلند شہری (حقیقی نام حنیف محمد) ہے، فنا جی اتر پردیش کے مقام بلند شہر میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد مراجعت کر کے اروپ نگر گوجرانوالہ میں قیام پذیر ہوئے اور وہیں نومبر 1986 میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اور اپنے نئے وطن میں خاک نشین ہوئے۔ شاعری میں آپ کی وجہِ شہرت زیادہ تر عارفانہ و عاشقانہ کلام کے حوالے سے جانی پہچانی رہی ہے۔ فنا جی نے شاعری کی تربیت استاد قمر جلالوی سے حاصل کی۔ آپ کے کلام کو نامور قوالوں نے گایا جن میں استاد نصرت فتح علی خان بھی شامل ہیں، جنہوں نے فنا جی کا کلام گا کر اسے شہرت دوام بخشی، خاص کر'میرے رشکِ قمر تُو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزا آ گیا' یہ قوالی آج بھی دنیا بھر میں گائی اور سنی جاتی ہے۔ محترم حسن نواز شاہ نے آپ کے کلام کو 'کلیاتِ فنا بلند شہری' کے نام سے مجتمع کیا ہے۔

      Delete