مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی ان کے رازداں نکلے
حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دَیرِ راہب میں
تو اہلِ دَیر ہمارے مزاج داں نکلے
بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعداء کو
سکوتِ شب نے سکھایا ہمیں سلیقۂ نطق
جو ذاکرانِ سحر تھے وہ بے زباں نکلے
میانِ راہ کھڑے ہیں اس انتظار میں ہم
کہ گردِ راہ ہٹے، اور کارواں نکلے
گماں یہ تھا کہ پسِ کوہ بستیاں ہوں گی
وہاں گئے تو مزاراتِ بے نشاں نکلے
افق سے پہلے تو دھندلا سا اک غبار اٹھا
پھر اس کے بعد ستاروں کے کارواں نکلے
کمالِ شوق سے چھیڑا تھا جن کو مطرب نے
وہ راگ ساز کے سینے سے نوحہ خواں نکلے
رئؔیس حجرۂ تاریک جاں کو کھول تو دوں
جو کوئی آفتِ قتالۂ جہاں نکلے
رئیس امروہوی
No comments:
Post a Comment