Saturday, 1 February 2020

حصار درد میں ہیں رنج و غم کے مارے ہوئے

حصارِ درد میں ہیں رنج و غم کے مارے ہوئے
اس ایک شخص کو مدت ہوئی پکارے ہوئے
الگ الگ ہیں، مگر ساتھ ساتھ چلنا ہے
ہم ایک سمت کو جاتے ندی کنارے ہوئے
خود اپنے ہاتھ سے اس نے خزاں کو سونپ دیا
خود اسکے ہاتھ کے شیشے میں ہیں اتارے ہوئے
میں اب کے لوٹنا اس کا نہ بھول پاؤں گا
کوئی حیات کی بازی ہو جیسے ہارے ہوئے
یا اس کی آنکھ کے جادو یا اپنے من کا فریب
حیات کرنے کو لے دے کے یہ سہارے ہوئے
سحر کے وقت لگی آنکھ تو گئی محنت
گواہ رات کی بے خوابیوں کے تارے ہوئے
اتر رہی ہے پھر آنکھوں میں دھند ماضی کی
رؔشید یاد کے کھنڈرات کو ابھارے ہوئے

رشید حسرت

No comments:

Post a Comment