دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا
خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا
بُوئے گل اب تجھے احساس ہوا بھی کہ تجھے
تیری آوارہ طبیعت نے کہیں کا نہ رکھا
تم کو ہر شخص سے ہے چشمِ مروت کی امید
ہم وہ ہیں جن کو تماشا کدۂ ہستی میں
جلوۂ عالمِ حیرت نے کہیں کا نہ رکھا
دلِ دانا ہمہ خوں، دیدۂ بِینا ہمہ اشک
دیدہ و دل کی لطافت نے کہیں کا نہ رکھا
نگہِ شوق کسی شے پہ ٹھہرتی ہی نہیں
اس بصارت کو بصیرت نے کہیں کا نہ رکھا
زُہدِ بے ذوق کو اے بندگئ دَیر و حرم
آستانوں کی عبادت نے کہیں کا نہ رکھا
پہلے یہ شکر کہ ہم حدِ ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا
مجملاً ہے یہ مِرا ماحصلِ جہد رئؔیس
خس کو طوفاں کی رفاقت نے کہیں کا نہ رکھا
رئیس امروہوی
No comments:
Post a Comment