Saturday, 1 February 2020

خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا

دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا
خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا
بُوئے گل اب تجھے احساس ہوا بھی کہ تجھے
تیری آوارہ طبیعت نے کہیں کا نہ رکھا
تم کو ہر شخص سے ہے چشمِ مروت کی امید
تم کو چشمِ مروت نے کہیں کا نہ رکھا
ہم وہ ہیں جن کو تماشا کدۂ ہستی میں
جلوۂ عالمِ حیرت نے کہیں کا نہ رکھا
دلِ دانا ہمہ خوں، دیدۂ بِینا ہمہ اشک
دیدہ و دل کی لطافت نے کہیں کا نہ رکھا
نگہِ شوق کسی شے پہ ٹھہرتی ہی نہیں
اس بصارت کو بصیرت نے کہیں کا نہ رکھا
زُہدِ بے ذوق کو اے بندگئ دَیر و حرم
آستانوں کی عبادت نے کہیں کا نہ رکھا
پہلے یہ شکر کہ ہم حدِ ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا
مجملاً ہے یہ مِرا ماحصلِ جہد رئؔیس
خس کو طوفاں کی رفاقت نے کہیں کا نہ رکھا​

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment