عشق، چاہت، دوستی سے، اختلاف اس نے کیا
دل کے ہر اِک فیصلے سے انحراف اس نے کیا
تب کہیں جا کر کھلے، اس پر رموزِ بندگی
اپنے اندر بیٹھ کر جب اعتکاف اس نے کیا
غیر ممکن ہے وہ اب بھرنا کسی تدبیر سے
مل گیا تھا منصفوں کو، بے گناہی کا ثبوت
دار تک پہنچا کے مجھ کو، انکشاف اس نے کیا
زیر بحث آیا تو تھا محشر میں، جرمِ شاعری
پر غزل سن کر مِری، ہنس کر معاف اس نے کیا
زلف، لب، رخسار، آنکھیں، قدوقامت، چال ڈھال
اتحادی فوج کو، میرے خلاف اس نے کا
نؔاز تم یوں ہی ہواؤں میں بناتے ہو محل
وہ تمہارا ہے، کہاں یہ اعتراف اس نے کیا
ناز مظفرآبادی
No comments:
Post a Comment