Monday 24 November 2014

دل کی آگ کہاں لے جاتے، جلتی بجھتی چھوڑ چلے

دل کی آگ کہاں لے جاتے، جلتی بجھتی چھوڑ چلے
بنجاروں سے ڈرنے والو! لو ہم بستی چھوڑ چلے
آگے آگے چیخ رہا ہے صحرا کا اک زرد سفر
دریا جانے ساحل جانے، ہم تو کشتی چھوڑ چلے
مٹی کے انبار کے نیچے، ڈوب گیا مستقبل بھی
دیواروں نے دیکھا ہو گا، بچے تختی چھوڑ چلے
دنیا رکھے چاہے پھینکے، یہ ہے پڑی زنبیلِ سخن
ہم نے جتنی پُونجی چوڑی، رتی رتی چھوڑ چلے
ساری عمر گنوا دی قیصرؔ، دو گز مٹی ہاتھ لگی
کتنی مہنگی چیز تھی دنیا، کتنی سستی چھوڑ چلے

قیصر الجعفری 

No comments:

Post a Comment