اگر دولت سے ہی سب قد کا اندازہ لگاتے ہیں
تو پھر اے مفلسی! ہم داؤ پر کاسا لگاتے ہیں
انہیں کو سربلندی بھی عطا ہوتی ہے دنیا میں
جو اپنے سر کے نیچے ہاتھ کا تکیا لگاتے ہیں
ہمارا سانحہ ہے یہ، کہ اس دورِ حکومت میں
وہ شاعر ہوں کہ عالم ہوں کہ تاجر یا لٹیرے ہوں
سیاست وہ جوا ہے جس میں سب پیسا لگاتے ہیں
اگا رکھے ہیں جنگل نفرتوں کے ساری بستی میں
مگر گملے میں میٹھی نِیم کا پودا لگاتے ہیں
زیادہ دیر تک مُردے کبھی رکھے نہیں جاتے
شرافت کے جنازے کو چلو کاندھا لگاتے ہیں
غزل کی سلطنت پر آج تک قبضا ہمارا ہے
ہم اپنے نام کے آگے ابھی رانا لگاتے ہیں
منور رانا
No comments:
Post a Comment