اپنے اترن کا ہمیں دان بھی کر سکتے ہیں
لوگ اب ہم پہ یہ احسان بھی کر سکتے ہیں
ہمیں معلوم نہ تھا، چاک قبا پھولوں کی
صحنِ گلشن کے نگہبان بھی کر سکتے ہیں
خونخواری پہ درندوں کو برا کیا کہنا
نسل در نسل بنا کر جنہیں رکھا ہے غلام
اک بپا دہر میں طوفان بھی کر سکتے ہیں
آج اس موڑ پہ لے آئے ہیں حالات کہ لوگ
تار تار اپنے گریبان بھی کر سکتے ہیں
یہ سلگتے ہوئے ایندھن کی طرح، مہر بہ لب
وقت کو ششدر و حیران بھی کر سکتے ہیں
اب ترا جبرِ مسلسل ہمیں منظور نہیں
ہم کسی روز یہ اعلان بھی کر سکتے ہیں
سرور ارمان
No comments:
Post a Comment