Thursday 27 November 2014

فراز طور انا سے اتر کے دیکھتے ہیں

فرازِ طورِ انا سے اتر کے دیکھتے ہیں
حیات کیا ہے کسی روز مر کے دیکھتے ہیں
جہاں بلندی و پستی میں امتیاز نہ ہو
ہم ایسے لوگ وہاں کب ٹھہر کے دیکھتے ہیں
یہ آگہی کا سفر ضبط کی ریاضت ہے
برہنہ پا بھی خوشی سے گزر کے دیکھتے ہیں
چلو کہ پھول بچھاتے ہیں راہِ یاراں میں
چلو کہ جھولیاں کانٹوں سے بھر کے دیکھتے ہیں
ہتھیلیوں پہ لیے شب نصیب آنکھوں کو
ہم اہلِ قافلہ امکاں سحر کے دیکھتے ہیں
اٹھائیں گے وہ کہاں انقلاب کا پرچم
جو لوگ خواب بھی دیکھیں تو ڈر کے دیکھتے ہیں

سرور ارمان

No comments:

Post a Comment