Saturday 29 November 2014

ایک بھی چھینٹ نہ اڑنے دی کہیں پانی کی

ایک بھی چِھینٹ نہ اڑنے دی کہیں پانی کی
ریت نے آپ سمندر کی نگہبانی کی
کانچ کے جسم پہ پہنی ہے قبا پانی کی
پھر بھی تہمت نہ لگے حسن پہ عریانی کی
زندگی کاہشِ بے سود کا خمیازہ ہے
عمر بھر ہم نے پس انداز پشیمانی کی
اتنے ہی تُو نے مری راہ میں کانٹے بوئے
جس قدر میں نے تری راہ میں آسانی کی
ہاتھ اگر خون میں رنگ لو گے تو روزِ محشر
ہو گی محراب سے توقیر نہ پیشانی کی
اتنا منظر میں تحیر نہیں ہوتا اکثر
جتنی ہوتی ہے جگہ آنکھ میں حیرانی کی
جس طرح رکھتا ہے وہ اپنے اسیروں کا خیال
کون یوں خیر خبر رکھتا ہے زِندانی کی
صرف آنکھیں ہی تحیر کا پتہ دیتی ہیں
ہم سے تصویر تو بنتی نہیں حیرانی کی

واجد امیر 

No comments:

Post a Comment