Friday 28 November 2014

کهلتا نہیں دراصل ہوں باسی کہاں کا میں

کهُلتا نہیں دراصل ہوں باسی کہاں کا میں
گاہے زمیں کا ہوں تو گہے آسماں کا میں
رکهوں خیال کیسے کسی کہکشاں کا میں
رہبر ہوں ایک سوئے ہوئے کارواں کا میں
کچھ بهی دکهائی دیتا نہیں دور دور تک
مرکز ہوں ایک دائرۂ بے کراں کا میں
دل میں وفا کی روشنی کرنے کی دیر تهی
حقدار بن گیا ہوں غمِ جاوداں کا میں
پِهرتا ہوں دُکھ لیے ہوئے ناآشنائی کا
کردار بهولی بِسری ہوئی داستاں کا میں
آئینۂ یقیں مِرے ہاتھوں میں ہے فصیحؔ
کیسے نبهاؤں ساتھ کسی بدگماں کا میں

شاہین فصیح ربانی

No comments:

Post a Comment