ملاقات مری
ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رخصت ہوئے رہگیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مِری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مِری
اک ہتھیلی پہ حِنا، ایک ہتھیلی پہ لُہو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہوا تختۂ داغ
کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مِری
آشنا موت، جو دشمن بھی ہے غمخوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment