آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غم زدوں کو قرار آ گیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی، جیسے پیغامِ دِیدارِ یار آ گیا
جس کی دِید و طلب وہم سمجھے تھے ہم، رُو بُرو پھر سرِ رہگزار آ گیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمرِ رفتہ تِرا اعتبار آ گیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے لگے، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزُو پر نکھار آ گیا
سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتلِ شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آ گیا
فیضؔ کیا جانیے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
مئے کشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دلفگاروں پہ قاتل کو پیار آ گیا
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment