Monday 24 November 2014

کہاں جاؤ گے

کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند​
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے​
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری​
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے​
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں​
اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی​
بے وفائی کی گھڑی ، ترکِ مدارات کا وقت​
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی
ترکِ دنیا کا سماں، ختمِ ملاقات کا وقت​
اس گھڑی اے دلِ آوارہ! کہاں جاؤ گے​
اس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں، رہنے دو​
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو​
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے​
اس گھڑی اے دلِ آوارہ! کہاں جاؤ گے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment