Sunday 23 November 2014

قطع تعلق سے مطمئن ہو تو پھر یہ دل میں کسک سی کیوں ہے

قطع تعلق سے مطمئن ہو، تو پھر یہ دل میں کسک سی کیوں ہے
یہ ہاتھ سینے پہ کیوں دھرا ہے، یہ بھیگی بھیگی پلک سی کیوں ہے
یہ لگ رہا ہے، ابھی گئے ہیں برس کے، یادوں کے کالے بادل
کسی کے حسنِ نظر کا پرتَو ہے، ورنہ دل میں‌ دھنک سی کیوں ہے
اگر یہ سمجھا رہے ہو خود کو، کہ زخم اب سارے بھر گئے ہیں
تو رِِس رہا ہے لہو کہاں سے، یہ تازہ خوں کی مہک سی کیوں ہے
چلو! یہ مانا کہ سچ ہے، تم سب، شرارِ الفت بجھا چکے ہو
اگر فقط راکھ رہ گئی ہے، تو پھر یہ اِس میں چمک سی کیوں ہے
ہمیشہ، ضامنؔ! جواز لاتے ہو، ان کی بے اعتنائیوں کا
کسی نے پوچھا تو کیا کہو گے، روِش میں اتنی لچک سی کیوں ہے​

ضامن جعفری

No comments:

Post a Comment