Monday 24 November 2014

ہر کوئی جاتی ہوئی رت کا اشارہ جانے

ہر کوئی جاتی ہوئی رُت کا اشارہ جانے
گُل نہ جانے بھی تو کیا باغ تو سارا جانے
کس کو بتلائیں کہ آشوبِ محبت کیا ہے
جس پہ گزری ہو، وہی حال ہمارا جانے
جان نکلی کسی بِسمل کی نہ سورج نکلا
بُجھ گیا کیوں شبِ ہجراں کا ستارا جانے
جو بھی مِلتا ہے وہ ہم سے ہی گِلہ کرتا ہے
کوئی تو صورتِ حالات خدارا جانے
دوست احباب تو رہ رہ کے گلے مِلتے ہیں
کس نے خنجر مِرے سینے میں اتارا جانے
تجھ سے بڑھ کر کوئی نادان نہیں ہو گا فرازؔ
دشمنِ جاں کو بھی تُو جان سے پیارا جانے

 احمد فراز

No comments:

Post a Comment