ہر کوئی جاتی ہوئی رُت کا اشارہ جانے
گُل نہ جانے بھی تو کیا باغ تو سارا جانے
کس کو بتلائیں کہ آشوبِ محبت کیا ہے
جس پہ گزری ہو، وہی حال ہمارا جانے
جان نکلی کسی بِسمل کی نہ سورج نکلا
جو بھی مِلتا ہے وہ ہم سے ہی گِلہ کرتا ہے
کوئی تو صورتِ حالات خدارا جانے
دوست احباب تو رہ رہ کے گلے مِلتے ہیں
کس نے خنجر مِرے سینے میں اتارا جانے
تجھ سے بڑھ کر کوئی نادان نہیں ہو گا فرازؔ
دشمنِ جاں کو بھی تُو جان سے پیارا جانے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment