Sunday 23 November 2014

اس طرح کیجئے اندیشہ فردا سے گریز

اس طرح کیجیے اندیشۂ فردا سے گریز
مصلحت کرتی ہے جس طرح شناسا سے گریز
تشنگی میری طرح تُو بھی قلندر نکلی
کبھی قطرے پہ تصدق کبھی دریا سے گریز
منزلِ عشق کا راہی ہوں مجھے کیا معلوم
دامنِ صبر ہے بہتر کہ تمنا سے گریز
اور جینے کا ہنر اس کے سوا کچھ بھی نہیں
صرف خوشیوں سے تعلق غمِ دنیا سے گریز
آخرش ڈھونڈھ لیا درد کا درماں ہم نے
چارہ سازوں سے کنارہ، دمِ عیسیٰ سے گریز
اور بن جائیے استادِ سخن، کعبۂ فن
لیجیے میرؔ سے تشبیب تو مرزاؔ سے گریز
کون کہلائے گا پھر قیس کا سجادہ نشیں
جب جلیلؔ آپ بھی کرنے لگے صحرا سے گریز

جلیل نظامی

No comments:

Post a Comment