Friday 12 December 2014

آج اے دل لب و رخسار کی باتیں ہی سہی

آج اے دل! لب و رخسار کی باتیں ہی سہی
وقت کٹ جائے گا کچھ پیار کی باتیں ہی سہی
یوں تو کٹتی ہی رہے گی غمِ دوراں میں حیات
آج کی رات غمِ یار کی باتیں ہی سہی
زندہ رہنے کی کبھی تو کوئی صورت نکلے
عشرتِ عالمِ دیدار کی باتیں ہی سہی
کوئی تو بات چِھڑے آج بہت جی ہے اداس
کم سے کم رحمتِ اغیار کی باتیں ہی سہی
اب تو تنہائی کو یہ کرب نہ ہو گا برداشت
کچھ نہیں تو در و دیوار کی باتیں ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے انہیں قُربت گُل تو ہے نصیب
آج گُل کی نہ سہی، خار کی باتیں ہی سہی
یہ تو طے ہے کہ جئے جائیں گے ہر حال میں ہم
ان کے لب پر رسن و دار کی باتیں ہی سہی

حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment