خوش گزرانِ شہرِ غم، خوش گزراں گزر گئے
زمزمہ خواں گزر گئے، رقص کناں گزر گئے
اس کی وفا کے باوجود اس کو نہ پا کے بدگماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے، کتنے گماں گزر گئے
اب یہی طے ہوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
رات تھی میرے سامنے فردِ حسابِ ماہ و سال
دن، مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے
کیا وہ بساط الٹ گئی، ہاں وہ بساط الٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے، ہاں وہ جواں گزر گئے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment