Friday 26 December 2014

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا

غیروں سے مل کے ہی سہی، بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہرِ خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک
کچھ بھی ہوا، وہ واقفِ افلاک تو ہوا
کچھ اور وہ ہوا نہ ہوا مجھ کو دیکھ کر
یادِ بہارِ حُسن سے غمناک تو ہوا
اس کشمکش میں ہم بھی تھکے تو ہیں اے منیرؔ
شہرِ خدا سِتم سے مگر پاک تو ہوا

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment