Sunday 14 December 2014

آدمی آدمی سے ملتا ہے

آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
کاروبارِ جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بهی مزا محبت کا
دل کی ہمسائیگی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment