کلی کے بس میں نہ کچھ گُل کے اختیار میں ہے
یہ حُسنِ کُل کی جھلک حُسنِ مستعار میں ہے
لب و زباں کی، فقط لرزشوں میں، لطف کہاں
مزہ، جو رُوح صدا دے، تو ایک بار میںہے
ہوا کے دوش پہ مرکز کی سمت خاک چلی
فرازِ طُور پہ جانے کی کیا ضرورت تھی
اسی کا عکس، ہر آئینۂ بہار میں ہے
فرشتہ کاش کرے رُوح سلب یہ کہہ کر
ہر ایک خُلد میں، ضامنؔ کے انتظار میں ہے
ضامن جعفری
No comments:
Post a Comment