Sunday 14 December 2014

کلی کے بس میں نہ کچھ گل کے اختیار میں ہے

کلی کے بس میں نہ کچھ گُل کے اختیار میں ہے
یہ حُسنِ کُل کی جھلک حُسنِ مستعار میں ہے
لب و زباں کی، فقط لرزشوں میں، لطف کہاں
مزہ، جو رُوح صدا دے، تو ایک بار میں‌ہے
ہوا کے دوش پہ مرکز کی سمت خاک چلی
تڑپ جو دل میں تھی میرے، وہی غبار میں ہے
فرازِ طُور پہ جانے کی کیا ضرورت تھی
اسی کا عکس، ہر آئینۂ بہار میں ہے
فرشتہ کاش کرے رُوح سلب یہ کہہ کر
ہر ایک خُلد میں، ضامنؔ کے انتظار میں ہے​

ضامن جعفری

No comments:

Post a Comment