Monday 22 December 2014

تعلقات بھی رکھے نہیں گئے مجھ سے

تعلقات بھی رکھے نہیں گئے مجھ سے 
برہنہ راز تھے، ڈھانپے نہیں گئے مجھ سے
جو اشک تیری جدائی سے کر لیے منسوب
وہ بھر کے آنکھ میں لائے نہیں گئے مجھ سے
نہ جانے لکھا ہو کیا ان میں، اس تذبذب میں
تمہارے خط بھی تو کھولے نہیں گئے مجھ سے
کسی پھٹے ہوئے کاغذ کے میلے پرزوں سے   
دریدہ خواب تھے، دیکھے نہیں گئے مجھ سے
تمہارے ہاتھ سے دل گِر کے پاش  پاش ہوا  
ہزار ٹکڑے تھے، جوڑے نہیں گئے مجھ سے
لبوں کے بل، میرے سارے بدن کا خون لگا
ستارے ہاتھ سے توڑے نہیں گئے مجھ سے
میں ہار مان کے مسعودؔ لوٹ آیا ہوں
جفا کے لشکری مارے نہیں گئے مجھ سے

مسعود منور

No comments:

Post a Comment