Thursday 25 December 2014

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بے گانہ کوئی
کچھ کہو یارو! یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی
صبحدم دیکھا تو سارا باغ تھا گل کی طرف
شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی
خلوتوں میں روئے گی چھپ چھپ کے لیلائے غزل
اس بیاباں میں نہ اب آئے گا دیوانہ کوئی
ہم نشیں خاموش دیواریں بھی سنتی ہیں یہاں
رات ڈھل جائے تو پھر چھیڑیں گے افسانہ کوئی

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment