کوئی صورت آشنا اپنا نہ بے گانہ کوئی
کچھ کہو یارو! یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی
صبحدم دیکھا تو سارا باغ تھا گل کی طرف
شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی
خلوتوں میں روئے گی چھپ چھپ کے لیلائے غزل
ہم نشیں خاموش دیواریں بھی سنتی ہیں یہاں
رات ڈھل جائے تو پھر چھیڑیں گے افسانہ کوئی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment