Sunday 14 December 2014

کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی

کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوۂ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
واعظ! نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو اِدھر بھی ہو اُدھر بھی
ہے فیصلۂ عشق جو منظور تو اُٹھیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگرؔ بھی

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment