ایسے ہونٹوں پہ مِرے، نام تِرا رہتا ہے
جیسے تسبیح کے دانوں پہ خدا رہتا ہے
تُو نے اور میں نے، خدا دیکھا نہیں ہے پھر بھی
مجھ کو توحید کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے
دے جا مولا، کی صدا آتی ہے دیواروں سے
جانے کیا ڈھونڈتا پھرتا ہوں کتب خانوں میں
اس تجسس میں، مِرا حال برا رہتا ہے
دل سے پھینکی نہ گئی عرش کے کنگروں پہ کمند
اور وہ بت بھی پجاری سے خفا رہتا ہے
نیلی آنکھوں سے چھلکتی ہے گلابی، جب بھی
سرخ ہونٹوں پہ کوئی پھول کھلا رہتا ہے
جگمگا اٹھتی ہیں اک بت کی چمک سے راتیں
اک دِیا جیسے شبستاں میں جلا رہتا ہے
تیری خوشبو سے ترے پہلو میں باتیں کر کے
جانے تا دیر مجھے کیسا نشہ رہتا ہے
تجھ کو یہ خوف، کہیں تجھ سے تجھے مانگ نہ لوں
دیکھ کر مجھ کو، ترا رنگ اڑا رہتا ہے
عشق، آسیب ہے، آسیب زدہ ہوں مسعودؔ
ایک سایہ سا مِرے پیچھے پڑا رہتا ہے
مسعود منور
No comments:
Post a Comment