ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پِھسلا تو آسمان میں تھے
ہے ندامت، لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے
میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرا خود پر سے اِعتماد اٹھا
کتنے وعدے مری اٹھان میں تھے
تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گِرتے گِرتے بھی اپنے دھیان میں تھے
واہ، ان بستیوں کے سنّاٹے
سب قصیدے ہماری شان میں تھے
آسمانوں میں گِر پڑے، یعنی
ہم زمیں کی طرف اڑان میں تھے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment