Saturday 27 December 2014

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پِھسلا تو آسمان میں تھے
ہے ندامت، لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے
میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرے اور میرے درمیان میں تھے
میرا خود پر سے اِعتماد اٹھا
کتنے وعدے مری اٹھان میں تھے
تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گِرتے گِرتے بھی اپنے دھیان میں تھے
واہ، ان بستیوں کے سنّاٹے
سب قصیدے ہماری شان میں تھے
آسمانوں میں گِر پڑے، یعنی
ہم زمیں کی طرف اڑان میں تھے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment