مانا کہ مُشتِ خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
لیکن ہوا کے رحم و کرم پر نہیں ہوں میں
انسان ہوں، دھڑکتے ہوئے دل پہ ہاتھ رکھ
یوں ڈوب کر نہ دیکھ سمندر نہیں ہوں میں
چہرے پہ مَل رہا ہوں سیاہی نصیب کی
وہ لہر ہوں جو پیاس بجھائے زمین کی
چمکے جو آسماں پہ وہ پتھر نہیں ہوں میں
غالب تری زمین میں لکھی تو ہے غزل
تیرے قدِ سخن کے برابر نہیں ہوں میں
لفظوں نے پی لیا ہے مظفرؔ مرا لہو
ہنگامۂ صدا ہوں، سخن ور نہیں ہوں میں
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment