Friday 12 December 2014

تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں

تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں
اب میسر دھوپ میں ہیں زلف کے سائے کہاں
جانے والے سوچ کر جانا کہ بے حد شوخ ہے
کیا پتہ ہے ایسے دل کا کس پہ آ جائے کہاں
تیرے میرے گھر میں جو دیوار حائل ہو گئی
تیشۂ پُرزور کو مشکل ہے کہ ڈھائے کہاں
تم انا کے پاسباں تھے، ہم بھی غیرت کے امیں
تم جو سُن پائے نہیں تو، ہم بھی کہہ پائے کہاں
تیرے پہلو سے جو ہجرت کر کے آیا تھا وہی
بے اماں، بے فیض، بے توقیر دل، جائے کہاں
مے کدے سے بے اثر نکلے تو اُس کے گھر گئے
ہم کہاں سے پی کے آئے اور چکرائے کہاں
اُس کے گھر ہم چائے پہ مدعو تھے، سب اچھا رہا
واپسی پر یاد آیا، رہ گئی چائے کہاں

عامر امیر

No comments:

Post a Comment