Saturday, 13 December 2014

لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے

لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے
میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کےلئے
اتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر
سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کےلئے
سخن لباس پہ ٹھہرا، تو جوگیوں نے کہا
کہ آستیں ہے فقط سانپ پالنے کےلئے
میں سوچتا ہوں کبھی میں بھی کوہکن ہوتا
ترے وجود کو پتھر میں ڈھالنے کے لئے
کسے خبر کہ شبوں کا وجود لازم ہے
فضا میں چاند ستارے اچھالنے کےلئے
بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا
بدن کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کےلئے
وہ ماہتاب صفت، آئینہ جبیں، محسنؔ
گلے ملا بھی تو مطلب نکالنے کےلئے​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment