لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے
میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کےلئے
اتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر
سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کےلئے
سخن لباس پہ ٹھہرا، تو جوگیوں نے کہا
میں سوچتا ہوں کبھی میں بھی کوہکن ہوتا
ترے وجود کو پتھر میں ڈھالنے کے لئے
کسے خبر کہ شبوں کا وجود لازم ہے
فضا میں چاند ستارے اچھالنے کےلئے
بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا
بدن کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کےلئے
وہ ماہتاب صفت، آئینہ جبیں، محسنؔ
گلے ملا بھی تو مطلب نکالنے کےلئے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment