آج کی رات بھی گزری ہے مِری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے تِرے آنچل کی طرح
حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناً یارو
ایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح
پھر نہ نکلا کوئی گھر سے کہ ہوا پھرتی تھی
سنگ ہاتھوں میں اٹھائے کسی پاگل کی طرح
تُو کہ دریا ہے، مگر میری طرح پیاسا ہے
میں تیرے پاس چلا آؤں گا بادل کی طرح
رات جلتی ہوئی ایک ایسی چِتا ہے جس پر
تیری یادیں ہیں سُلگتے ہوئے صندل کی طرح
میں ہوں اک خواب مگر جاگتی آنکھوں کا امیرؔ
آج بھی لوگ گنوا دیں نہ مجھے کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے تِرے آنچل کی طرح
حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناً یارو
ایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح
پھر نہ نکلا کوئی گھر سے کہ ہوا پھرتی تھی
سنگ ہاتھوں میں اٹھائے کسی پاگل کی طرح
تُو کہ دریا ہے، مگر میری طرح پیاسا ہے
میں تیرے پاس چلا آؤں گا بادل کی طرح
رات جلتی ہوئی ایک ایسی چِتا ہے جس پر
تیری یادیں ہیں سُلگتے ہوئے صندل کی طرح
میں ہوں اک خواب مگر جاگتی آنکھوں کا امیرؔ
آج بھی لوگ گنوا دیں نہ مجھے کل کی طرح
امیر قزلباش
حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناًیاریارو
ReplyDeleteایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح
بہترین شعر ہے
میرے پسندیدہ شعراء کرام میں ایک نام امیر قزلباش کا بھی شامل ہے