Wednesday 10 December 2014

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے مِلنے کی بھی مِلتی نہیں فرصت ہم کو
 روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
آنکھ اب کس سے تحیّر کا تماشا مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو
 اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو
 کون سی رُت ہے زمانے، ہمیں کیا معلوم
اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو
 زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی مِلی اب کے مسافت ہم کو
 داغِ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجدؔ
ڈھانپ لیتی نہ اگر چادرِ رحمتؐ ہم کو

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment