Monday 8 December 2014

اتنا نہ یاد کر اسے تھکتی ہے یاد بھی

اتنا نہ یاد کر اسے، تھکتی ہے یاد بھی
اے دل! ذرا سنبھل کہ بہکتی ہے یاد بھی
دْوری تو اور پھول کھلاتی ہے قرب کے
ویرانے میں تو اور مہکتی ہے یاد بھی
تیرے ہی پاس ہو گا مرا گمشدہ سکوں
تیرے ہی اردگرد بھٹکتی ہے یاد بھی
سہما ہوا ہے دل کسی خوفِ گزشتہ سے
اب تو مرے بدن میں دھڑکتی ہے یاد بھی
بینائی تو غبار ہوئی انتظار میں
آنکھوں میں میری اب تو کھٹکتی ہے یاد بھی
کیسا ہجومِ درد ہے اے دل! کہ ان دنوں
دم بھی الجھ رہا ہے، اٹکتی ہے یاد بھی
شاید وہ لوٹ آئے کسی طور باغ میں
طائر پکارتے ہیں، چہکتی ہے یاد بھی

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment